*دور جدید میں تعلیم نسواں اور ہمارا معاشرہ*
1 min read*دور جدید میں تعلیم نسواں اور ہمارا معاشرہ*
———————————-
*محمد نسیم اختر*
استاد- گورنمنٹ مڈل اسکول مصطفیٰ پور اردو, بلاک-چہرا کلاں, ویشالی
—————————————-
تعلیم نسواں دو الفاظ کا مرکب ہے، تعلیم اور نسواں۔ تعلیم کا مطلب ہے ’’علم حاصل کرنا‘‘۔ نسواں ’’نسا‘‘ سے ہے جس کا مطلب ہے عورتیں۔ گویا تعلیم نسواں سے مراد عورتوں کی تعلیم ہے۔ علم اور تعلیم دونوں کی اہمیت اپنی اپنی جگہ مسلم ہے۔
تاریخ مذاہب کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو تخلیق فرماکر جنت میں ٹھہرایا۔ حضرت آدمؑ نے تمام نعمتوں کے موجود ہونے کے باوجود تنہائی و کمی محسوس کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت حواؑ کو پیدا فرمایا۔ گویا عورت کا وجود کائنات کی تکمیل کرتا ہے۔
عورت اس کائنات کا جمال و شاہکار اور دلکش وجود ہے۔ وہ گردش لیل ونہار کا ایک حسین اور کیف آور نغمہ ہے جس کے دم سے حیات قائم ہے۔ عورت کے بغیر انسانی نسل کا استحکام اور نشوونما ناممکن ہے۔ بقائے حیات و معاشرے کا قیام و استحکام، جسمانی و روحانی آسودگی عورت ہی کے باعث ہے۔ عورت ماں کے روپ میں بے لوث محبت و شفقت و ہمدردی اور ایثار و قربانی کی انمول داستان ہے۔ عورت بیوی کی صورت میں خلوص، وفاداری اور چاہت کا حسین افسانہ ہے۔ عورت بہن کی شکل میں اللہ تعالیٰ کی بہترین نعمت ہے تو بیٹی کے روپ میں خدا کی رحمت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عورت انسانیت کی عزت ہے۔ مذہب اسلام نے عورت کو مرد کے برابر مقام و مرتبہ عطا فرماکر اس کی حیثیت متعین کردی ہے-
علم دلکش داستان اور بے مثال کہانی ہے۔ یہ لامحدود موضوع ہے۔ ایک جامع مضمون ہے جو ہر شے کے ہر پہلو کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ یہ وہی طاقت و قوت ہے جس نے دربار خداوندی میں انسان کی فضیلت فرشتوں پر ثابت کی ہے۔ علم ایک لازوال دولت ہے جو تقسیم کرنے سے کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو جہالت کی تاریکی کو مٹاتی ہے۔ یہ وہ زرخیز زمین ہے جس کے پھولوں اور پھلوں کی کوئی گنتی ، کوئی شمار نہیں۔ یہ وہ سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ یہ وہ طاقت ہے جو انسان کو خود شناسی سکھاتی ہے۔
علم کا عمل تعلیم سے مکمل ہوتا ہے۔ تعلیم کے ذریعے ایک نسل اپنا تہذیبی اور تمدنی ورثہ دوسری نسل کو منتقل کرتی ہے۔ اس مقصد کے لئے ہر سوسائٹی اپنے تہذیبی مسائل اور تمدنی حالات کے مطابق ادارے قائم کرتی ہے اور ہر ادارے کی اپنی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ وہ قوم اور ملک کی توقعات پر پورا اترے۔ لیکن ایک چیز سب میں مشترک ہے کہ پچھلی نسل اگلی نسل کو اپنے سارے تجربات منتقل کرتی ہے بلکہ یہی نہیں پوری انسانیت کے تجربات اور علوم پوری طرح منتقل کرتی ہے تاکہ اقوام عالم کے شانہ بشانہ زندگی کی دوڑ میں شریک ہوا جاسکے۔
مذہب اسلام کو دیگر مذاہب کے مقابلے میں ایک امتیاز یہ بھی حاصل ہے کہ یہ حصول علم پر ہرممکن زور دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم و حکمت کو مومن کی گمشدہ متاع قرار دیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مردوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بھی مخصوص فرمارکھا تھا۔ ازواج مطہرات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دین کی باتیں سیکھ کر دیگر مسلمان خواتین کو سکھاتی تھیں۔ یوں دین کی تعلیم عورتوں تک بھی باقاعدہ پہنچتی رہی۔
درحقیقت تعلیم ہی وہ زیور ہے جس سے عورت اپنے مقام سے آگاہ ہوکر اپنا اور معاشرے کا مقدر سنوار سکتی ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ کچھ بزرگ تعلیم نسواں کے متعلق بڑی غلط فہمی رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم صرف لڑکوں ہی کو دینا ضروری ہے۔ تعلیم صرف روزگار کے لئے چاہئے۔ اس میدان میں صرف مردوں کو آنا چاہئے۔ عورتیں صرف باورچی خانے کے لئےپیدا ہوئی ہیں اور ان کی زندگی باورچی خانے سے شروع ہوکر دستر خوان پر ختم ہوجاتی ہے۔اس طرح کی باتیں ہرگز درست نہیں۔ عورتیں بھی انسان ہیں۔ علم کی روشنی انسان کو جینا سکھاتی ہے۔ عالم اسلام کی جلیل القدر شخصیت حضرت عبدالقادر جیلانی کی ماں ہی تھیں کہ جن کی تربیت کا اثر تھا کہ بچپن میں آپ کے دست مبارک پر ڈاکوؤں نے توبہ کی۔
کسی دانا کا قول ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے۔ بچہ جو کچھ اس درس گاہ سے سیکھتا ہے وہ اس کی آئندہ زندگی پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔ بچے کی بہترین تربیت کے لئےماں کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ مفکرین کی رائے میں: ’’مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم ہے، جبکہ عورت کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ہے‘‘۔ فرانس کے مشہور بادشاہ نپولین کا قول ہےـ: ’’آپ مجھے اچھی مائیں دیں، میں آپ کو بہترین قوم دوں گا۔
مذہب کو انسانی زندگی میں خاص مقام حاصل ہے۔ مذہب کی بنیادی تعلیمات اور اہم مسائل سے آگاہی مرد کے ساتھ ساتھ عورت کے لئےبھی اشد ضروری ہے۔ علم ہی وہ کامیاب راستہ ہے جس پر چل کر انسان زندگی کو کامیاب و کامران بناسکتا ہے۔ پڑھی لکھی عورت مذہبی و دینی تعلیمات ومسائل سے اچھی طرح آگاہ ہوتی ہے۔ وہ اپنی اولاد کی تربیت بہتر انداز میں کرسکتی ہے اور ملک و ملت کی تقدیر سنوار سکتی ہے۔