اردو زبان و ادب کا تاریخی پس منظر ——————————– محمد نسیم اختر
اردو زبان و ادب کا تاریخی پس منظر
——————————–
محمد نسیم اختر
استاد – گورنمنٹ مڈل اسکول مصطفیٰ پور اردو
بلاک – چہراکلاں, ویشالی
——————————–
انسان کا علم سے وہی رشتہ ہے جو روح کا جسم سے ہے۔ اس بات کا اندازہ اس حکم خدا وندی سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے علم کی بابت انبیاء علیہ السلام کو بڑی وضاحت اور سراحت سے علم حاصل کرنے کی ہدایت و ترغیب دی گئی ہے اور اللہ تعالی نے نبی ص کو خصوصی طور پر یہ دعا سکھائی اور فرمایا کہ اے نبی ؔ یہ دعا کرتے رہا کریں ”و قل ربی زندنی علما“ کہ اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما۔
پھر پیام وحی کا پہلا لفظ بھی ”اقراء“ یعنی ”پڑھ“ ہے اور ساتھ ہی قلم سے علم کی ترسیل کا بندوبست کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔
اردو زبان دنیا میں قومی سطح پر رائج زبانوں میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ یہ زبان بر صغیر اور اس سے ملحقہ علاقوں اور قریبی ممالک میں بولی لکھی اور سمجھی جانے والی مختلف زبانوں کا ایک ایسا گلدستہ ہے جس میں ہماری تہذیب، ثقافت، تاریخ اور تمدن کی وہ گہری چھاپ ہے جس کی مہک آج بھی برِصغیر پاک و ہند میں تروتازہ محسوس کی جاسکتی ہے۔
یہ مقامی زبانیں چاہے وہ آج کی ہندی ہے جو قدیم ترین مقامی ہندوستانی زبان سنسکرت سے نکلی ہو یا اس کے ساتھ ساتھ برصغیر کی مختلف علاقائی طور پہلے سے موجود مقامی زبانیں ہر ایک کی چاشنی اس اردو زبان میں موجود اور پائی جاتی ہے۔
اب اگر اردو زبان کی پیدائش کا ذکر کیا جائے تو اس بابت تاریخ ہند میں ہمیں اس کے مختلف ماخذ ملتے ہیں
اگر اس کی ابتدا کو دکن سے جوڑیں تو یہاں دکن میں بولی جانے والی زبان میں مالابار کے ساحلوں پر اترنے والے عرب و مقامی تاجروں کی اس زبان کی آمیزش ہے جو انہوں نے اپنے کاروباری لیں ن دین کے لئے مقامی اور عربی کے الفاظ کی شمولیت سے ترتیب دی یعنی اگر صرف عرب تاجروں ہی کا حوالہ لیا جائے تو اس میں معیشت اور حساب کتاب سے متعلق الفاظ کی آمیزش کا رنگ بھی نظر آئے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اس آمیزش نے اردو میں نئی تراکیب اور الفاظ بھی شامل کیے دکن والوں کا دعوہ کہ اردو کی ابتدا دکن سے ہوئی اس بات کو کلی نہیں تو جزوی طور پرتسلیم کرنا ہوگا۔ ہاں یہ بات درست ماننا پڑے گی کہ بعد میں دکن سے جو ادب نکلا اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دکن نے اردو کی ترویج و ترقی میں اپنا حصہ ضرور ڈالا ہے۔
ایک دوسرا دعوہ سندھ دھرتی کے باسی کرتے ہیں اور وہ اردو کی ابتدا کو سندھ سے جوڑتے ہیں اور دلالت کے طور پر وہ اس کی توجیح عرب فاتحین کی سندھ میں آمد سے ملاتے ہیں یعنی محمد بن قاسم کی سندھ آمد نے عربی کو مقامی زبان میں شمولیت اختیار کرائی اور اس ہی کی ترقیافتہ صورت نئی زبان بنُکر ابھری اور اس زبان نے ترقی و ترویج کے مختلف مدارج طے کرتے ہوئے اردوز زبان کی صورت اختیار کی۔ اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کیونکہ آج بھی سندھی زبان میں پہاڑ کے لئے ”جبل“ کا لفظ رائج ہے اور جبل عربی میں پہاڑ ہی کے معنی میں لیا جاتا ہے۔ اس کی علاوہ اور بھی بیشمار اسے ہم معنی الفاظ دونوں زبانوں میں موجود اور رائج ہیں۔
پنجاب و سرحد بھی ایجاد ترویج و ترقی اردو کے دعویدار ہیں ہر دو کا دعوہ گذشتہ دو کی نسبت زیادہ پختہ اور مضبوط دکھائی دیتا ہے۔ دور سلاطین کی ابتدا تاریخی طور پر انہیں دو حصوں سے منسوب ہے سلاطینِ ہند غزنی و افغانستان سے صوبہ سرحد میں داخل ہوتے ہوئے پنجاب پہنچے اور لاہور کو اپنا دارلخلافہ بھی بنایا۔ سلاطین نے ان دونوں جگہوں کی مقامی زبانوں میں بیشمار الفاظ کا اضافہ کیا۔ ان الفاظ میں اکثریت فارسی زبان کے الفاظ کی تھی پھر اس میں بعد کے آنے والے سلاطین اور مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر جو ترک نسل سے تھا کی وجہ سے ترکی الفاظ بھی اردو زبان کا حصہ بھی بنے۔
دہلی اور لکھنو کے عظیم الشان شعراء اور ادباء نے اس نئی زبان اردو کو ترقی، تہذیب و تمدن اور خاص طور پر ادب کی معراج عطا کی۔ اس سلسلے میں دیگر کے علاوہ میر و غالب کی خدمات قابل تذکرہ ہیں۔