انگریزی کورٹ میں انگریزی حکومت کے خلاف شیر کی طرح گرجے تھے علامہ فضل حق خیرآبادی:مفتی سلیم نوری
1 min readانگریزی کورٹ میں انگریزی حکومت کے خلاف شیر کی طرح گرجے تھے علامہ فضل حق خیرآبادی:مفتی سلیم نوری
1857کی جنگ آزادی کے منصوبہ ساز اور اصلی قائد تھے علامہ فضل حق خیرآبادی:،مفتی سلیم بریلوی
علامہ فضل حق خیرآبادی _ایک ایسا مظلوم قائد انقلاب جسے اپنے ہی ملک میں دوگز زمین تک نہ مل سکی۔مفتی سلیم بریلوی۔
بلا تفریق رنگ ونسل تمام ھندوستانیوں کے اتحاد و یکجہتی کی انوکھی مثال ھے 1857ء کی جنگ آزادی:مفتی سلیم بریلوی
بریلی،
یادگار اعلیحضرت جامعہ رضویہ منظر اسلام درگاہ اعلیحضرت بریلی شریف مجاہدین جنگ آزادی کے تعارف اور ملک ھندوستان کے لئے قوم مسلم کے علما۔مفتیان۔کرام۔خانقاھی بزرگوں۔مسلم قائدین اور عوام مسلمین کی طرف سے پیش کی گئیں بے مثال قربانیوں کو اپنی نسل نو کے سامنے اجاگر کرنے کا تاریخ ساز کارنامہ انجام دے رھا ھے۔اس سلسلہ میں صحافتی ترجمان ناصر قریشی نے بتایا کہ منظر اسلام کے مفکر و دانشور اور نباض و دور اندیش عالم دین مفتی محمد سلیم بریلوی صاحب مرکز اھلسنت کے سربراہ حضرت سبحانی میاں صاحب اور سجادہ نشین حضرت مفتی احسن میاں صاحب کی نگرانی میں مسلسل سوشل میڈیا۔میڈیا اور اپنے آنلائن پروگرامز کے توسط سے مسلم قائدین و مجاہدین جنگ و تحریک آزادی سے نونہالان قوم و ملت کو شعور و آگہی بخش رھے ہیں۔اس سلسلہ میں آج مفتی سلیم صاحب نے اپنے آنلائن پروگرام میں طلبہ و نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا ک آج بیس اگست کا دن تاریخ آزادی ھند میں ایک یادگار دن ھے۔آج کے دن ھم تمام ھندوستانی خراج عقیدت پیش کررھے ہیں اس عظیم قائد انقلاب کو کہ جسے دنیا علامہ فضل حق خیرآبادی کے نام سے جانتی ھے۔آج ہی کے دن یہ عظیم قائد دیار غیر انڈمان کی سرزمین پر سیلولر جیل میں ابدی نیند سو گیا تھا۔ آپ کی پیدائش 7 اپریل سترہ سو چھیانوے عیسوی کو اتر پردیش کے ضلع سیتاپور کے قصبہ خیرآباد میں ھوئی تھی ۔انہوں نے مزید بتایا کہ قائد انقلاب علامہ فضل حق خیرآبادی اس عہد ساز شخصیت کا نام ہے جس نے علم و ادب،شعر و سخن،حکمت و فلسفہ کے ساتھ ساتھ قوم و ملت اور ملک و مسلک کے لئے جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔
آپ نے دارالافتاء میں بیٹھ کر صرف فتویٰ جہاد نھیں دیا بلکہ فتوئ دینے کے ساتھ قید و بند کی پرواہ کیے بغیر مسند نشینی چھوڑ کر حریت پسندوں کے شانہ بشانہ بھی کھڑے ہو گئے- آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی فوج کے لیےا پنی الور کی ملازمت ٹرک کرکے دھلی کے لئے اٹھارہ سو ستاون میں روانہ ھوگئے۔ دہلی روانگی کے دوران درمیان راہ میں زمینداروں کو آمادہ کیا۔مولوی احمد اللہ شاہ دلاور جنگ مدارسی کی رائے ہموار کی۔،دہلی جنگ کی تیاری کے دوران بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے مشیر اعلیٰ کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دیں۔منصوبہ سازی۔کی۔مجاہدین کے لئے مال و زر ھتیار اور سامان رسد کے انتظامات کو یقینی بنایا۔ اہل اور لائق حکام کا تقرر اور ان کے لیے دستورالعمل جاری کیا۔ آمدنی پر توجہ اور مال گزاری کی تحصیل کا انتظام کرنے کے فوجیوں کے اندر جذبہ جہاد پیدا کیا۔علمائے دہلی کے ساتھ ملک بھر کے علماء اور اھل خانقاہ ارباب درسگاہ اور ائمہ مساجد کے ساتھ رابطہ کا نظم و نسق کیا۔ان کے ساتھ جلسے کئے۔ پھر جرنل بخت خاں کی درخواست پر فتویٰ جہاد مرتب کر کے علماء و عوام کے اندر جوش خروش پیدا کیا۔ اس فتوئ جہاد نے بارود کے ڈھیر پر چنگاری کا کام کیا اور دیکھتے دیکھتے نوے ہزار مجاہدین سپاہی دہلی آ پہنچے جس نے فرنگیوں کے ہوش اڑا دیے ۔ ان سے کچھ نہ بن پڑ رہا تھا کہ آزادی کے سرفروشوں کے اس طوفان کو کیسے روکیں۔ لیکن خدا برا کرے ان ملت فراموشوں کا جنہوں نے ان فرنگیوں کے ہاتھوں ملک و ملت کا سودا کر رکھا تھا ۔یہ غدار جنگ کی خفیہ پلاننگ کی اطلاع ان فرنگیوں کو فراہم کرتے رہے-
لشکروسپاہ اور قائدین کی ہزار سرفروشانہ کوششوں کے باوجود 1857ء کی یہ جنگ آزادی بھی ہندوستانیوں کی شکست اور فرنگیوں کی فتح پر ختم ہوئی-
یہ جنگ انیس ستمبر کو ھوئی تھی۔
١٩ ستمبر کے بعد ہندوستانی علما پر جو مصائب کے پہاڑ ٹوٹے اس کی نظیر تاریخ میں مشکل سے ملے گی۔انگریز اس جنگ کا اصل محرک علما کو جانتے تھے اس لئے ان کو بے دریغ ذبح کیا جانے لگا ۔دھلی کی نالیوں میں پانی کے بجائے علما کا خون بہہ رھا تھا تھا۔ علامہ خیرآبادی تو منصوبہ ساز تھے اس لئے آپ پر بھی مصیبتوں کا پہاڑ آن پڑا آپ پانچ دنوں تک بھوکے پیاسے ایک کمرے میں محبوس رہے- پھر کسی طرح چھپتے چھپاتے دہلی سے ریاست بھیکن پور پہنچے اور چند دن قیام کے بعد وہاں سے خیرآباد چلے آئے لیکن خیر آباد میں علامہ کو گرفتار کر لیا گیا- اور وہاں سے لکھنؤ لاکر آپ پر مقدمہ چلایا گیا- جج آپ کا شاگرد تھا۔وہ چاہتا تھاکہ آپ فتوئ جہاد سے اپنی برآت ظاہر کردیں مگر آپ نے انگریزی کورٹ ہی میں انگریزوں کو للکارنے ہوئے اور شیر کی طرح گرجتے یوئے کہا۔میں جھوٹ نھیں بولتا۔یہ فتوی میرا ھی ہے۔اٹھارہ سو ستاون سے اٹھارہ سو اٹھاون تک مقدمہ چلا اور آپ کو کالا پانی کی سزا سنا کر جزیرہ انڈمان سیلولر جیل بھیج دیا گیا آپ کےاستقلال و استقامت پر قربان جائیے کہ عین حالت اسیری میں جزیرہ انڈمان سے اپنے ملک کے باشندوں کی اور خود اپنی داستان کرب و بلا بشکل الثورۃالھندیہ و قصائد فتنتہ الہند)١٢٧٧ھ/١٨٦٠ء میں مفتی عنایت احمد کاکوروی کے بدست انڈومان سے ہندوستان لکھکر ارسال فرمائیں۔بھیجتے ہیں آخر کار منطق و فلسفہ کا آخری امام۔عظیم قائد انقلاب اور علم و فضل کا یہ آفتاب 12/صفر1278ھ /20 اگست 1861ء کو جزیرہ انڈمان میں کس مپرسی کے عالم میں غروب ہو گیا-