مولانا عبد المجید رحمانی: ایک بافیض مدرس تحریر: محمد شمیم احمد شمسی، سابق پرنسپل، مدرسہ احمدیہ ابابکر پور، ویشالی
1 min readمولانا عبد المجید رحمانی: ایک بافیض مدرس
تحریر: محمد شمیم احمد شمسی، سابق پرنسپل، مدرسہ احمدیہ ابابکر پور، ویشالی
صوبہ بہار میں دینی و تدریسی حلقوں میں چند ایسی شخصیتیں گذری ہیں جن کا ذکر احترام اور عقیدت کے ساتھ کیا جاتا ہے، ان نمایاں شخصیات میں مولانا عبدالمجید رحمانی کا نام بھی شامل ہے، مولانا عبدالمجید رحمانی، جو یکم اگست 1922ء کو قصبہ جتوارپور چوتھ، ضلع سمستی پور میں پیدا ہوئے، نہ صرف علم و تقویٰ کے حامل تھے بلکہ ان کا شمار ممتاز علماء دین میں ہوتا تھا، آپ کے والد حکیم محمد سراج الدین اور جد امجد حکیم لعل محمد دونوں اپنے وقت کے مشہور و معروف حکیم اور خدمتِ خلق کے حوالے سے بے حد مقبول تھے، مولانا رحمانی کی ابتدائی تعلیم گھر ہی پر ہوئی، اور دینی و مذہبی ماحول میں پرورش پانے کے باعث علم و ادب سے ان کا گہرا تعلق بچپن ہی سے قائم ہو گیا تھا۔
جب آ ٹھ سال کی عمر کو پہنچے تو اپنے والد محترم کے سایۂ شفقت سے محروم ہو گئے، مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا، اور گاؤں کے ہی مکتب میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، اور پھر اپنے خالو مولانا عبد الحفیظ کی زیر نگرانی ضلع ویشالی کی مشہور بستی ابابکر پور کا رخ کیا اور وہاں کے مشہور ادار ہ مدرسہ احمدیہ ابابکر پور میں 3 دسمبر 1941ء کو داخلہ لیا، جو ایک معتبر تعلیمی و تربیتی اقامتی ادارہ ہے۔
مولانا بچپن ہی سے ذہین اور غیر معمولی قوت حافظہ کے حامل تھے، انہیں علم کا فطری شغف تھا اور کتب بینی کا شوق ایامِ طفولیت سے ہی ان کے ساتھ تھا۔ مولانا نے اپنی خداداد ذہانت، فہم و فراست اور قوتِ حافظہ کے بل بوتے پر تعلیم کے تمام مراحل بخوبی طے کیے، انہوں نے مدرسہ احمدیہ ابابکر پور سے فوقانیہ تک کی تعلیم مکمل کی ،اور اس دوران انہوں نے مولانا محمد نعیم الدین قاسمی رح صدر المدرسین، اور دیگر ممتاز اساتذہ، جیسے مولانا سید شمس الحق رح(شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر)، محمد اظہر حسین، اور ماسٹر محمد مسلم جیسے اکابر اساتذہ سے استفادہ کیا۔
بعد ازاں،اعلیٰ تعلیم کے لیے بہار کے مشہور ومعروف ادارہ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کا رخ کیا، جہاں آپ نے وقت کے اکابر علماء اور محدثین عظام سے دینی علوم وفنون میں مہارت حاصل کیں، اور فاضل حدیث اور فارسی کی سند حاصل کیں، اور یہاں سے فراغت کے بعد آپ نے مختلف اداروں میں تدریسی فرائض انجام دیے اور کئی شاگردوں کی علمی و اخلاقی تربیت کی۔
پھر 17 دسمبر۱۹۵۰ء کو مولانا محمد نعیم الدین قاسمی رح کی صدارت میں ضلع ویشالی کے قدیم دینی وعلمی درسگاہ مدرسہ احمدیہ ابابکر پور، میں بحیثیت معاون مدرس آپ کا تقرر ہوا، جہاں آپ نے علم کی روشنی پھیلانے میں بھرپور دلجمعی کا مظاہرہ کیا اور بے شمار شاگرد ایسے تیار کیے جو خود اپنی ذات میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھے جن میں موانا سید مظاہر عالم شمسی سابق صدر المدرسین مدرسہ ہذا،مولانا ابوالخیر جبریل ملٹی پر پس ہائر سکنڈری اسکول دوار کا ناتھ مظفرپور سے “2008 کو سبکدوش ہوئے مفتی ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ،حافظ ومولانا ظفر اللہ ایم آر ایس ہائ اسکول منیاری سے ۲۰۱۳کو سبکدوش ہوے ڈاکٹر محمد عبد القادر احقر عزیزی (عرف مولوی عباد ) ہیڈ ماسٹر ھونے کے بعد ڈمرا ہائی اسکول سے سبکدوش ھوے (2001) میں مولانا منصور عالم ندوی حال مقیم دبئی مولانا جاوید احمد رحمانی ماسٹر افضل الرحمن اتکرمت مڈل اسکول اردو چینپور ویشالی سے ۲۰۲۴کو سبکدوش ہوے
پروفیسر غلام اشرف قادری
صدر شعبه فارسی گاندھی فیض عام کالج ، شاہجہاں پور –
پروفیسر غلام احمد نادری شعبه تاریخ
جورجیا یو نیورسٹی ، اٹلانٹا ، امریکہ پروفیسر محمد حسن رضاایس ایم کالج حاجی پور ویشالی محمد طالب حسین آزاد ابراہیم پوری ضلع سیتامرھی
قابل ذکر ہیں، اور جب ۱۹۶۵ میں حضرت مولانا سید محمد شمس الحق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر منتقل ہوئے تو مولانا رحمانی کو مدرسہ احمدیہ ابابکر پور میں صدر المدرس کے عہدے پر فائز کیا گیا۔
آپ نے اس ادارے کی ترقی، معیاری تعلیم، اور تربیت کے فروغ کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔ 1965ء سے 1985ء تک بحیثیت پرنسپل آپ نے اس ادارے کو مثالی اور مستحکم بنانے کے لیے انتھک محنت اور جدوجہد کی، تدریسی و تربیتی معیار کو بلند کرنے کے لیے آپ کی کوششوں کا نتیجہ یہ تھا کہ آپ کے شاگرد زندگی کے مختلف شعبوں میں کامیابی حاصل کرتے رہے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے، آپ کی صلاحیت اور تجربے کو دیکھتے ہوئے بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ نے آپ کو ممبر منتخب کیا، جہاں آپ نے اپنے مفید مشوروں سے تعلیمی میدان میں گراں قدر اضافہ کیا۔
راقم الحروف نے بھی درجہ تحتانیہ چہارم سے مولوی تک کی تعلیم مولانا عبد المجید رحمانی کے عہدِ صدارت میں حاصل کی ہے۔ آپ ایک معتبر عالمِ دین، متقی، پرہیزگار ، جودو سخا کے علمبرداراور نہایت ملنسار شخصیت کے مالک تھے، ساتھ ہی ایک باکمال مدرس، بے مثال خطیب، اور بہترین واعظ بھی تھے، میرے والد محترم مولانا عبدالوہاب شمسی آپ کے ہم جماعت تھے، اور دونوں شخصیات میں گہرا تعلق قائم تھا جو آخری لمحے تک برقرار رہا، واضح رہے کہ مولانا عبدالوہاب شمسی مدرسہ احمدیہ کے رکن بھی تھے۔
مولانا رحمانی جب تک مدرسہ احمدیہ میں رہے، پنج وقتہ نماز کی امامت کرتے رہے، اور جمعہ کے امام و خطیب بھی وہی رہے، ان کے دور میں کبھی جامع مسجد ابابکر پور کے لیے امام مقرر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، اور خلوص ودل جمعی کے ساتھ درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے ہوئے1985ء میں مدرسہ سے اپنی تدریسی میعاد کو مکمل کر کے ریٹائرڈ ہوئے، آپ ایک بہترین مدرس، عربی، فارسی اور دینیات کے ماہر استاد، اور زہد و تقویٰ کے پیکر تھے۔ مولانا رحمانی رح اعلی اخلاق و کردار کے مالک تھے تواضع اور مھمان نوازی ان کی فطرت تھی عوام و خواص سے خلوص سے ملنا ان کی عادت تھی-
مدرسہ احمدیہ سے سبکدوشی کے بعد مولانا نے اپنے آبائی وطن جتوارپور چوتھ میں سکونت اختیار کی ، اور محلے کی چھوٹی مسجد (مدنی مسجد) میں بلا معاوضہ امامت و خطابت کے فرائض انجام دینا شروع کیا اور دعوت و تبلیغ اور خلق خدا کے اصلاح میں لگ گئے ساتھ ہی اطراف واکناف میں پھیلے ہوئے غیر شرعی رسومات وبدعات کا قلع قمع کیا ،
۱۹۵۲ء میں مولانا کی شادی دربھنگہ کے قصبہ سوبھن کے محمد حسن کی دخترِ نیک اختر سے ہوئی۔ اللہ نے انہیں چار بیٹوں اور چار بیٹیوں سے نوازا، ان کے بڑے صاحبزادے قاری مولانا محمد ارشد رحمانی نے مدرسہ احمدیہ ابابکر پور سے حفظ مکمل کیا اور عالمیت تک تعلیم حاصل کی، پھر لکھنؤ کے مدرسہ عالیہ عرفانیہ سے قرأت کی تعلیم مکمل کی۔ ان کے دوسرے صاحبزادے مولانا محمد انور رحمانی نے بھی مدرسہ احمدیہ سے تعلیم حاصل کی اور اب مدرسہ اسلامیہ اماموری پاتے پور ویشالی میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ تیسرے صاحبزادے مفتی محمد انظر شبلی نے مدرسہ احمدیہ سے حفظ مکمل کرنے کے بعد جامعہ رحمانی مونگیر سے عالمیت اور دارالعلوم سبیل الاسلام حیدرآباد سے فضیلت وافتاء کی سند حاصل کی، اور وہیں تدریسی خدمات اور امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں، سب سے چھوٹے صاحبزادے محمد امجد سلمہ، علمی فراغت کے بعد سرکاری امداد یافتہ اسکول کے کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ میں بحیثیت کوآرڈینیٹر کام کر رہے ہیں۔
مولانا عبد المجید رحمانی اپنی آخری سانس تک درس و تدریس، امامت و خطابت اور دعوت و تبلیغ میں مصروف رہے، بالآخر 21 اگست 2006ء، بروز بدھ، بوقتِ سحر تین بج کر چالیس منٹ پر آپ نے آخری سانس لی اور اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اگلے دن، 22 اگست کو آپ کے جنازے کی نماز ان کے صاحبزادے مفتی محمد انظر شبلی نے پڑھائی اور آپ کو آپ کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔
مولانا عبدالمجید رحمانی کی زندگی علم، اخلاص، اور دینی خدمات کا عملی نمونہ تھی، انہوں نے اپنی زندگی کو علم کی اشاعت اور تربیتِ نسلِ نو کے لیے وقف کر دیا تھا، اور آپ کا تدریسی کردار آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بنا رہے گا، ان کی شخصیت نہ صرف اپنے شاگردوں کے لیے بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک مثالی کردار تھی، ا ن کی محنت اور کاوشیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، اور ان کا کردار آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بنا رہے گا۔