November 6, 2024

NR INDIA NEWS

News for all

صحافی،صحافت کو کاروبار نہیں بنائیں بلکہ قومی خدمات کے لئےمؤثر بنائیں/ مولانا امتیاز ندوی

صحافی،صحافت کو کاروبار نہیں بنائیں بلکہ قومی خدمات کے لئےمؤثر بنائیں/ مولانا امتیاز ندوی

 

مہواویشالی/ عادل شاہ پوری / کسی بھی ملک کے لئے صحافت کو چوتھا ستون تسلیم کیاجاتا ہے جس پر ملک بھی ٹکا رہتا ہے۔ صحافت ایک ایسا فن ہے جس کے زریعے صحافی سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا اس کے حد تک آسانی سے پہونچ جاتاہے لیکن ملال اس وقت ہوتا ہے جب واقعہ کے برخلاف واقعہ شائع ہوتا ہے ۔ حق کے ساتھ ناحق جرم میں مبتلا ہوجاتا ہے اور عوامی سطح پر اخبار کے زریعے چور سعد ہوجاتا ہے اور سعد چور ہوجاتا ہے اور یہ کمال اخبار کے صحافی کا ہوتا ہے جس میں خود ملک ہندوستان کی گودی میڈیا کا اہم رول دیکھا جاسکتا ہے آۓ دن الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے افواہیں اڑائی جاتی ہیں ، فحش کلام ، غلط طریقے سے ڈیبیٹ جو ملک ہندوستان کو معاشرتی طور پر بدنام کررہی ہے غور طلب بات ہے کی صحافت! لفظ صحیفہ سے نکلا ہے اور صحیفہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ قرآن مجید میں لفظ ”صحیفہ“ آٹھ مقامات پر آیا ہے۔ اس سے لفظ صحافت کی تشکیل ہوئی قرآن مجید میں قرطاس و قلم کا ذکر بھی موجود ہے۔ لہٰذا اسی لیے صحافت کو پیغمبری پیشہ بھی کہا جاتا ہے۔ تخلیق آدم ؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن خوبیوں سے سرفراز فرمایا ان میں علم اور اظہار خیال کی صلاحیت سرفہرست ہے۔ چنانچہ انسان بول کر اور لکھ کر اظہار خیال کرتا چلا آ رہا ہے۔ اعجاز نطق اور قوت تحریر ہر دور میں بہترین انسانوں کی نمایاں خوبیاں شمار ہوتی رہیں، صحافت بھی انہی دو صلاحیتوں کے اظہار کا نام ہے۔ صحافی کو ہر دور میں ایک نمایاں مقام حاصل رہا ہے اس کی وجہ عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ صحافی عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کرتا ہے اور عوامی مسائل اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ ایک صحافی کو سچ بولنے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، کیونکہ ایک صحافی کے کالم یا فیچر پر حکمرانوں کے ایوانوں میں ہلچل پیدا ہوجاتی ہے۔ سچ زہر پینے اور جنون تیاگ دینے کا نام اور خود اپنے ہاتھوں سے زہر کا پیالہ پینے کا مرحلہ قیس اور سقراط سے بھی آگے کا ہے اور جو لوگ اس سنگلاخ مرحلے کو سر کر جاتے ہیں وہ تاریخ میں ہیرو بن جاتے ہیں۔ اس لئے ”صحافت کو کاروبار نہیں بلکہ قومی خدمات کا مؤثر وسیلہ بنانا چاہیے ، صحافت ایک ایسا ہتھیار ہے جسے عالم انسانیت کی فلاح و بہبود اور معاشرے میں عدل و انصاف کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔“ دنیا بھر میں سچ بولنے اور لکھنے کے جرم میں صحافیوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا کیونکہ حق و باطل کی جنگ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ صحافت سچائی، حق گوئی اور داد رسی کی خصوصیات کی حامل رہے تو پیشہ پیغمبری ہے اور اگر کسی کی بلاوجہ عزت اچھالنے یا بلیک میل کرنے کے لیے استعمال ہو تو شیطانیت اور ابلیسیت بن جاتی ہے۔ ایک اچھا صحافی مورخ بھی ہوتا ہے اور مصور بھی کیونکہ وہ معاشرے کے رجحانات اور رویوں کو ریکارڈ پر لاتا ہے اور یہی ریکارڈ اس قوم اور معاشرے کی تاریخ بنتی چلی جاتی ہے۔ آج کل اکثر اخبارات اور ٹی وی چینل چونکہ کاروباری ادارے بن چکے ہیں اس لیے احقاق حق کے بجائے سنسنی خیزی، ہراسمنٹ، استحصال اور بلیک میلنگ کا نام صحافت رکھ دیا گیا ہے۔ ان حالات میں اچھی اور بامقصد صحافت کو بدنام کاروباری صحافت کے درمیان فرق کرنا انتہائی ضروری ہو چکا ہے۔ آج چند لوگ جو لفظ صحافت کے ”ص“ سے بھی واقف نہیں ہیں وہ ہاتھ میں مائیک پکڑ کر اور گلے میں کسی ڈمی اخبار کا پریس کارڈ ڈالے صحافی بنے بیٹھے ہیں بالخصوص یوٹیوبر صحافت کا بیڑا غرق کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
صحافت تو وہ ہوتا ہے کہ منفی باتوں کو مثبت میں بدل کر قوم تک پہونچاۓ ہمیں فخر ہے ان صحافی حضرات پر جو اپنے فن کو قومی فریضہ سمجھ کر ادا کر رہے ہیں جنہوں نے ہمیشہ ہر حال میں قلم کے جہاد کو جاری رکھا ہے۔میں صحافت میں روز نامہ اردو اردو اخبار قومی تنظیم کے چیف ایڈیٹر جناب ایس ایم اشرف فرید صاحب ، روزنامہ اردو اخبار پندار کے چیف ایڈیٹر جناب خالق احسانی صاحب ، روز نامہ اردو اخبار ایک قوم کے چیف ایڈیٹر جناب خورشید اکبر صاحب کی معیاری کالم سے ہمیشہ متاثر رہا ہوں، ان کی تحریریں قومیت ، اسلامیت اور انسانیت کا مظہر ہوتی ہیں۔ یہ عوامی مسائل پر نہ صرف بات کرتے ہیں بلکہ ان کے کالمز اور تجزیوں میں ان کے حل بھی موجود ہوتے ہیں۔ آپ سب بہت منفرد شخص ہیں۔ انسان دوست اور اللہ کی مخلوق سے محبت کرنے والے، نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرنا تو کوئی ان سے سیکھے۔ جنہوں نے ہمیشہ مثبت صحافت کو پروان چڑھایا اور زرد صحافت کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے نوجوانوں کے اندر جذبہ حب الوطنی کو فروغ دیا۔ مفادات کی صحافت کاخاتمہ کر کے خدمت کی صحافت کی مثال قائم کی ہے۔ ”کوئی میری نظر سے پوچھے تو صحافت صرف اور صرف عوام کی خدمت کا نام ہے۔ صحافی غریب، مظلوم عوام اور حکمرانوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ صحافت سوسائٹی کے آئینے کا کام کرتی ہے اور اگر یہ آئینہ ہی دھندلا ہو تو عکس درست نظر نہیں آتا۔
نہ سیاہی کے ہیں دشمن نہ سفیدی کے ہیں دوست
ہم کو آئینہ دکھانا ہے دکھاتے ہیں ۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © All rights reserved. | Newsphere by AF themes.