October 25, 2024

NR INDIA NEWS

News for all

حضرت مولانا الحاج سید ابوالخیر جبر یل ایک بے مثال شخصیت

حضرت مولانا الحاج سید ابوالخیر جبر یل ایک بے مثال شخصیت

 

محمد شمیم احمد شمسی ۔۔۔۔۔سابق پرنسپل مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی

ضلع ویشالی کی تاریخ مردم خیز ہے ۔ہر دور میں صاحب کمالات شخصیتیں پیدا ہوتی رہی ہیں ۔جہنوں نے اپنے علم وفضل تصنیف وتالیف درس وتدریس تقریر و تبلیغ شعرو شاعری اور علمی خدمات کے ذریعے غیر معمولی شہرت حاصل کی ہے ضلع ویشالی میں بستی ابا بکر پور کی تاریخ بڑی شاندار رہی ہے اس علاقے کو علمی وادبی اعتبار سے مرکزیت حاصل ہے موضع ابابکر پور سے متصل ایک چھوٹا سا خطہ چک اولیاء ہے اس میں ایسے ایسے باکمال علماء دانشوران گزرے ہیں جہنوں نے اردو فارسی اور عربی زبان میں بےبہا کارنامے انجام دیئے ہیں جنہیں فراموش کرنا مشکل ہے علماء دانشوران ادباء شعراء کا مسکن چک اولیاء آج بھی سر سبزوشاداب ہے
موضع چک اولیاء کی جن شخصیتوں نے دینی علمی حلقوں میں اپنا غیر معمولی خدمات انجام دیئے ہیں ان میں ایک اہم شخصیت الحاج مولانا سید ابو الخیر کا بھی نام ہے
مولانا موصوف کی ولادت یکم دسمبر 1948ء کو ایک معزز تعلیم یافتہ دیندار گھرانے میں ہوئی ضلع ویشالی کے ممتاز ترین خاندانوں میں موصوف کا خاندان ایک اہم اور منفرد خاندان کی حثیت سے معروف ہے گھر کا ماحول دینی و علمی اور پابند شرع ہے دینداری نمائشی نہیں بلکہ فطرت میں شامل ہے آپ کے والد ماجد حافظ سید بدر الحق رح کا تعلق سادات کے معزز خاندان سے تھا ۔ ایام طفولیت میں آپ ک والد بزرگوار حافظ سید بدر الحق کا انتقال ہوگیا ۔ آپ کی والدہ ماجدہ نے بڑی سنجیدگی سے پرورش و پرداخت کیں چونکہ مولانا موصوف کا گھرانہ علم و فضل کا گہوارہ تھا ۔ اور ہنوز یہ سلسلہ قائم ودائم ہے
مولانا موصوف کے جد امجد اپنے زمانے کے علماء ومشائخ اور مستجاب الدعوات میں سے تھے ۔ اپنی اپنی حاجات کے لئے دعاء کرانے کے لئے اکناف وجوانب کے لوگ آتے رہے اسکے علاوہ وعظ و تلقین کا سلسلہ بھی قائم تھا ۔ جس سے عوام کو بہت فائدہ پہونچ رہا تھا جب مولانا موصوف کی عمر پڑھنے کے قابل ہوئی تو اپنے جد امجد سے اردو فارسی عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھنے لگے آپ کے دادا بزرگوار سید محمد ابرہیم علیہ الرحمہ نے بڑی شفقتوں سے اپنے پوتے کی پرورش اور تعلیم وترتیب کا اہتمام فرمایا ۔ جب مولانا دس سال کی عمر کو پہونچے آپ کے جد امجد کا بھی انتقال ہوگیا اور آپ اپنے جد امجد کی شفقتوں سے محروم ہو گئے
آپ کے عم بزرگوار سید منظور الحق اور مولانا سید شمس الحق مرحومین جو اپنی علمی و ادبی صلاحیت کے لحاظ سے شہرت کی بلندی پر فائز تھے ۔ پرہیز گاری ۔ دیانتداری ۔ خلوص و للہیت اور خشیت و خاکساری کی بنا پر عوام وخواص میں بہت ہی عقیدت واحترام حاصل تھا آپ کے دونوں عم بزرگوار نے آپ کی پرورش پرداخت اور تعلیم وترتیب پر مکمل نگرانی فرمائی اور پرورش کا حق ادا کیا ۔ مولانا موصوف کے جد امجد حضرت مولوی سید ابرہیم آپکے والد بزرگوار حافظ سید بدر الحق اور دونوں عم بزرگوار مولوی سید منظور الحق مولوی سید شمس الحق صاحبان کے ذریعے آپ کی تعلیم و تربیت اور ذہن سازی کی گئی ۔ آپ سب سے زیادہ انہیں اکابرین سے بیحد متاثر رہے ۔ آپ کی شخصیت میں ان بزرگوں کا پرتو رہا آپ ان کے حسن واخلاق تبحر علمی اور باعمل زندگی کو اپنے اندر پیوست کرنے کی کوشش کیں ۔جب مکتب نشینی کے قابل ہوئے تو آپ کا داخلہ ایک قدیم معیاری ۔ دینی ۔علمی ۔ اقامتی معیاری ادارہ مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں کرایا گیا ۔ آپ بچپن سےہی نہایت ذہین و فطین اور کتب بینی کا ذوق رکھتے تھے۔ الحاج مولانا سید ابو الخیر اس وقت کے ماہر جید علماء اور محنتی باکمال اساتذہ شیخ الحدیث مولانا سید محمد شمس الحق رح قاری صغیر حافظ عبد الحفیظ مولانا عبد المجید رحمانی مولانا سرور الحق ۔ اور عصری تعلیم کے ماہر ماسٹر ظہیر الحق جیسے اکابرین سے اکتساب علم کیا ۔ خداداد ذہانت اور فطری صلاحیت کی بناپر مولانا موصوف نے درجہ مولوی کا امتحان سنہ 1961ء میں اچھے نمبرات سے پاس کیا ۔ دوران طالب علمی جید علماء بالخصوص بانئ مدرسہ الحاج خانصاحب مولوی احمد میررح کے محبوب نظر بنے رہے ۔ خانصاحب مولوی احمد میر نے آپ کو جبرئیل کا لقب بھی دیا ۔ آج مولانا موصوف علاقے میں جبرئیل کے نام سے معروف و مشہور ہیں ۔
درجہ مولوی کا امتحان اچھے نمبرات سے کامیاب ہونے کے بعد مدرسہ عزیزیہ بہار شریف کا رخ کیا ۔ اور درجہ عالم میں داخلہ لیا مذکورہ مدرسے میں نہایت قابل اور علوم و فنون میں ماہر اساتذہ کرام سے شفقت اور عزم و لگن سے تعلیم حاصل کیا ۔ اور درجہ عالم کا امتحان بھی سنہ 1963ء میں پاس کیا ۔ آپ خاندانی شرافت ذاتی اہلیت خدادا ذہانت اپنی محنت و مستعدی کی بنا پر اساتذہ کے محبوب نظر بنے رہے ۔ سنہ 1966ء میں بہار کے معروف و مشہور مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ سے فاضل فارسی سند سے سرفراز ہوئے ۔
تعلیمی فراغت کے بعد مولانا موصوف ایک نہایت باصلاحیت تجربہ کار اور ماہر تعلیم کی شکل میں منظر عام پر آگئے
مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی کے مخلص خیراندیش قاری محمد صغیر صاحب کی ایماء پر اپریل سنہ 1965ء میں بحثیت معلم مقرر ہوئے آپ ایک باکمال اور بافیض استاد کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دیتے ہوئے ماہ اگست سنہ 1965ء کو رخصت ہوئے اور اپنی صلاحیت و صالحیت ورع وتقویٰ کا عکس جمیل چھوڑ گئے ۔ مولانا موصوف کو یہ شرف حاصل ہے کہ مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ضلع ویشالی میں آپ متعلم بھی رہے اور معلم بھی ۔ مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ضلع ویشالی میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد مدرسہ عظمتیہ لوور چیت پور کلکتہ میں ایک سال مدرس رہے پھر اس کے بعد سنہ 1967ء میں شری رام چندر ہائ اسکول پاتے پور ویشالی جو علاقے کا مشہور اسکول ہے اس میں اردو فارسی استاد کی تقرری کے لئے انٹرویو ہوا اس انٹرویو میں آپ کامیاب ہوئے اور باضابطہ تعلیم و تدریس سے منسلک ہوگئے ۔ پھر سنہ 1995ء میں آپ کا تبادلہ ملٹی پرپس ہائر سکینڈری اسکول دوار یکا ناتھ مظفر پور ہوگیا ۔ اور وہیں سے سنہ 2008ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے
الحاج مولانا سید ابو الخیر صاحب کی شخصیت کوئ محتاج تعارف نہیں آپ ایک نامور عالم دین اور بے مثال خطیب ہیں ۔ مولانا موصوف عام خطیبوں اور مقررین کی طرح ایک مقرر اور خطیب ہی نہیں بلکہ اوصاف و کمالات کے اعتبار سے ایک جامع ہمہ اوصاف شخصیت بھی ہیں ۔ اور خاندانی ونسبی حیثیت سے اعلی درجے کی شرافت اور تلمذ وارادت کے لحاظ سے بھی روحانی رشتہ اپنے زمانے کے مشاہیر علماء اور مشائخ عظام سے قائم ہے ۔سادگی کی فطرت میں پیوست ہے نہایت سادہ زندگی گزارنے والے یہاں تک کہ کھانے پینے اوڑھنے پہنے میں بھی سادگی کو ہی پسند کرتے ہیں ۔شہرت سے نفرت طبیعت میں بے حد انکساری چھوٹوں اور بڑوں سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنے کی خصلت ہے آپ زیادہ وقت عبادت وریاضت میں صرف کرنے والے اتباع سنت کا زیادہ خیال رکھنے والے نہایت کم گو انسان ہیں ۔ علماء صلحاء سے آپ کا گہرا تعلق ہے ۔مولانا کو مجمع میں تقریر وخطابت کی جو بے نظیر صلاحیت اور قابلیت اللہ تعالٰی نے فرمائی ہے مولانا کا انداز گفتگو اور طرزِ بیاں اور طرزِ تحریر قابل ستائش ہے بنیادی طور پر آپ ایک درویش صفت شریف النفس اور خداترس انسان ہیں آپ کو درس وتدریس ۔ تقریر وتحریر میں کمال حاصل ہے ۔ مولانا کی شاعری ان کا مشغلہ نہیں ہے پھر بھی شاعری کا اچھا خاصا ملکہ حاصل ہے ۔تجلیات جبریل بہترین نعت پاک کا مجموعہ ہے جو کتا بی شکل میں منظر عام پر ھے اس کا مرتب مولانا محمد قمر عالم ندوی استاد مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی ھیں
مولانا موصوف شاعر و ادیب اور بہترین مقرر کی حیثیت سے انکی شخصیت مسلم ہے اردو فارسی اور عربی زبانوں پر دسترس حاصل ہے آپ نےدرس وتدریس میں کافی محنت کی ہے سچ پوچھیے تو آپ کا مقصد حیات ہی پڑھنا پڑھانا رہا ہے آپ نے اردو و فارسی درجات میں مختلف علوم و فنون کی کتابیں پڑاھتےرھے غرض یہ کہ آپ گوناگوں اور ہمہ عہد شخصیت کے مالک ہیں ۔مولانا کی جاءے ولادت موضع۔ چک اولیا ءھے لیکن اپ دوران ملازمت ساکن چک نصیر پاتے پور ویشالی کو اپنا مستقل مسکن بنایا اور وہیں کے ہوکر رہ گئے
مولانا ہمارے لئے ایک رہبر مربی اور معلم شفیق ہیں آپ دعوت و تبلیغ کے عظیم الشان کام،موثر مواعظ اور مخلصانہ دینی خدمتو‌ں کی بناء پر ضلع ویشالی مقبول خاص۔ و عام ھیں مولانا نے اپنی زندگی ،ز ھد و تقوی پرہیز گاری ،عبادت خدا وندی اور خدمت انسانی میں گزارنے میں مصروف ھیں آپ کازیاد ہ وقت دین اسلام کی اشاعت میں گزرتا ھے مولانا موصوف ایک مایہ ناز استاد بہترین واعظ و خطیب،علم وعمل کا پیکر اکابر کے تقوی و طہارت کی تصویر اور اسلاف کے یاد گار ھیں
آپ مدرسہ اسلامیہ اماموری پاتے پور کے صدر ھیں وھیں مدرسہ عظمتیہ موسی پو ر اورمدرسہ تعلیم القرآن بہوآرہ کے سرپرست بھی ھیں
آپ مخدوم الملک حضرت مولانازکریا علیہ الرحمہ کے دست حق پر بیعت بھی ھیں
دین۔ اسلام کی اشاعت کے لئےآپ نے جو۔ خدمات انجام دیے ھیں وہ روز روشن کی طرح عیاں ھیں آپ اپنے زھدو تقوی پرہیز گاری حق گوئ اور دین اسلام کی تبلیغ کی وجہ سے مسلما نوں کے دلوں میں ہمیشہ پاءیند ہ و تابندہ رہیں گے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © All rights reserved. | Newsphere by AF themes.